ترکی میں گزشتہ چند ماہ سے جاری اقتصادی بحران کی وجہ سے ترک اپوزیشن صدر ایردوان سے قبل از وقت انتخابات کروانے اور فوری طور پر ’’اکنامک ایمرجنسی ‘‘ نافذ کرنے کا مطالبہ کر رہی تھی اور اس اقتصادی بحران کی وجہ سے صدر ایردوان کی مقبولیت میں بڑی تیزی سے کمی بھی دیکھی گئی لیکن جیسا کہ میں اپنے کالموں میں کئی بار تحریر کر چکا ہوں کہ صدر ایردوان دنیا کے ان گنے چنے سیاستدانوں میں سے ایک ہیں جو ہمیشہ اپنی قوتِ بازو پر بھروسہ کرتے ہوئے کامیابی کی راہ ہموار کرتے رہے ہیں۔ اگرچہ کورونا وبا کی وجہ سے ترکی کی اقتصادیات پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے لیکن ترکی وہ واحد ملک ہے جس نے ان منفی حالات سے استفادہ کیا اور تاریخ میں پہلی بار 46 ممالک کو ایک ایک بلین ڈالر سے بھی زائد کی برآمدات کرتے ہوئے نیا ریکارڈ قائم کیا۔ ترکی کی تاریخ میں پہلی بار اتنے بڑے پیمانے پر غیر ملکی کرنسی کی برآمدات کے توسط سے حاصل ہونے والی آمدنی کے باوجود آخر کیا وجہ تھی کہ ترکی میں ایک سال کے اندر اندر ڈالر کی قدرو قیمت ترک لیرے کے مقابلے میں سو فیصد تک بڑھتی چلی گئی۔
ترک لیرے کی قدرو قیمت میں دراصل گراوٹ کا سلسلہ امریکی صدر کی جانب سے ترکی اقتصادیات کو نقصان پہنچانے کی دھمکی اور ترک اپوزیشن سے قریبی تعلقات قائم کرنے کے بعد سے شروع ہوا جس کا اپوزیشن نے بھر پور فائدہ اٹھایا اور صدر ایردوان کی اقتصادی پالیسیوں کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم کا آغاز کر دیا جس سے ترک لیرے کی قدرو قیمت میں مسلسل کمی ہونے لگی اور لوگوں نے دھڑا دھر ڈالر اور یورو خریدنا شروع کر دیے۔ ترکی میں تمام باشندوں کو غیر ملکی کرنسی میں اکائونٹ کھولنے کا حق حاصل ہے۔ تمام باشندے منی چینجرز کو ترک لیرا دے کرغیر ملکی کرنسی خرید سکتے ہیں یا پھر براہ راست انٹرنیٹ کے ذریعے خود ہی غیر ملکی کرنسی خرید کر بینکوں میں جمع کروا سکتے ہیں۔ ترکی کے سینٹرل بینک نے گزشتہ کئی ماہ سے ڈالر کی قدرو قیمت کو کنٹرول رکھنے کے لیے ڈالر اور یورو کو مارکیٹ میں فروخت کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا تھا حالانکہ ترکی کے خزانے میں 126 بلین ڈالر سے زائد کے ذخائرموجود تھے جس سے ترکی کی اقتصادی صورتِ حال کے مستحکم ہونے کی بھی عکاسی ہوتی ہے لیکن ڈالر کی مانگ میں ہونے والے اضافے کو روکنے کے لیے سینٹرل بینک نے صرف ماہ دسمبر میں لگ بھگ 6 بلین ڈالرز کو مارکیٹ میں فروخت کیا تاکہ ڈالر اور یورو کی مانگ کو لگام دی جاسکے لیکن بدقسمتی سے یہ تدبیر بھی ترک لیرے کی قدرو قیمت کو مستحکم نہ کر سکی۔
صدر ایردوان اور ان کی کابینہ نے آخر کار اس آگ پر قابو پانے کے لیے ایک بالکل نیا اور انوکھا طریقہ اختیار کیا۔ اگرچہ اس سے قبل ترکی میں اس سے ملتے جلتے طریقہ کار استعمال کیے جاتے رہے ہیں لیکن صدر ایردوان کی جانب سے استعمال کیا جانے والا یہ طریقہ کار بالکل مختلف ہے۔ اس نئے طریقہ کار کے مطابق صدر اردوان نے ترک بینکوں میں تین، چھ، نو اور بارہ ماہ کے لیے ترک لیرا میں فکس ڈیپازٹ رکھنے والوں کو ڈالر یا یورو کے مقابلے میں ترک لیرا کی قدرو قیمت میں کمی واقع ہونے کی صورت میں پہنچنے والے نقصان کو حکومت کی جانب سے متعلقہ شخص کو ادا کرنے اور ساتھ ہی معینہ مدت کے سود کی ادائیگی کو بھی ادا کرنے کی ضمانت فراہم کی۔ جس کے مارکیٹ پرفوری مثبت اثرات مرتب ہوئے اور صدر ایردوان کی تقریر ختم ہونے پر مارکیٹ بند ہونے کے باوجود ٹرکش لیرے کی قدرو قیمت میں پانچ فیصد کا اضافہ ہو گیا پھر دیکھتے ہی دیکھتے ٹرکش لیرا جو ایک ڈالر کے مقابلے میں 18٫25 تک گر چکا تھا سنبھلنا شروع ہو گیا اور اسی شام 11٫75 تک واپس آگیا۔ اس دوران حزبِ اختلاف کی جماعت ’’گڈ پارٹی‘‘ کے ایک رہنما دُرمُش یلماز‘ جو سینٹرل بینک کے گورنر بھی رہ چکے ہیں‘ نے عوام کو اس صورتِ حال سے استفادہ کرتے ہوئے فوری طور پر ڈالر خریدنے کی تلقین کی تاکہ ترک لیرا واپس اٹھارہ یا بیس لیرے تک آنے کی صورت میں عوام کو فائدہ پہنچ سکے۔
صدر ایردوان کا یہ ایک ایسا کارنامہ تھا جس پر تمام ماہرین ہکا بکا رہ گئے بلکہ اس خبر کو پیش کرنے والے اینکر پرسنز کے چہرے کے تاثرات اس تبدیلی کے ناقابلِ یقین ہونے کی چغلی کھا رہے تھے۔ صدر ایردوان کے اس نئے ماڈل کے ترکی کی سیاست پر بھی نمایاں اثرات محسوس کیے جا رہے ہیں اور عوام کا صدر ایردوان کےاس طریقہ کار کو استعمال کرنے اور اس پر حکومت کی مکمل گرفت ہونے پر یقینا ًاعتماد قائم ہو چکا ہے۔ اس طرح ترکی میں غیر ملکی کرنسی خاص طور پر ڈالر اور یورو حاصل کرنے کی جو دوڑ لگی ہوئی تھی اس کا رخ اب ترک لیرا حاصل کرنے کی جانب ہو چکا ہے۔ سب سے بڑھ کر ملک میں غیر یقینی کے بادل چھٹ چکے ہیں اور مطلع صاف ہو چکا ہے۔ سیاسی فضا جو کچھ عرصے قبل تک صدر ایردوان کےمخالفین کے حق میں ہو گئی تھی۔ ایک بار پھر صدر ایردوان کے حق میں ہو گئی ہے۔ صدر ایردوان نے ترک لیرے کی مضبوطی کے لیے مزید نئے طریقہ کار متعارف کروانے کا بھی اعلان کیا ہے۔ کئی ایک ممالک نے جہاں پر ہمیشہ ہی سے غیر ملکی کرنسی کی قدرو قیمت کا مسئلہ موجود ہوتا ہے، حکومتِ ترکی سے رجوع کرنا شروع کر دیا تاکہ اس مسئلے پر قابو پایا جا سکے۔
صدر ایردوان کے اس نئے طریقہ کار کومتعارف کروانے کے بعد ترک وزیر خزانہ نور الدین نباتی نے کہا ہے ترکی کا یہ نیا ماڈل نہ تو چین اور نہ ہی کوریا کا ماڈل ہے بلکہ یہ ترکی کا اپنا وضع کردہ ماڈل ہے جس میں ملکی پیداوار، برآمدات اور روزگار میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو ختم کرتے ہوئے فاضل آمدنی کا طریقہ کار رائج کیا جائے گا کیونکہ ترکی اپنے بنیادی ڈھانچے کو مکمل کر چکا ہے اور اسے چین یا کوریا کی طرح طو یل عرصہ معیار زندگی بہتر بنانے کا انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ ترکی اس وقت دنیا کے تجارتی مرکز کا روپ اختیار کر چکا ہے اور 2053 میں یہ دنیا کے پہلے دس ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو گا۔
0 Comments