سوئس لیکس، دبئی لیکس، پانامہ لیکس، 25 والیمز جعلی اکاؤنٹس منی لانڈرنگ گھپلے، 10 والیمز جعلی اکاؤنٹس منی لانڈرنگ دس نمبریاں، حدیبیہ، ایون فیلڈ، العزیزیہ، فلیگ شپ ڈاکے، 56 کمپنی رُولے، آشیانہ ٹھگیاں، ادویات اسکینڈل، آٹا گندم ہیر پھیر، چینی کھانچے، پٹرول چوریاں، نجی بجلی گھر کرپشن، بی آر ٹی ہڑپشن، ما لم جبہ چتر چالاکیاں، ایل این جی دیہاڑیاں اور اب پنڈورا لیکس، اتنی لیکس ہو چکیں کہ دھوتی بنیان میں پاکستان لیکو لیک، دھوتی بنیان میں پاکستانی لیکولیک، 5 فیصد مگرمچھوں نے 95 فیصد انسان نما جانوروں کی ناکوں کی لیکریں نکلوا دیں، کیا سیاستدان، کیا بیوروکریٹس، کیا تاجر، کیا میڈیا ٹائیکون، اکثریت جیرے بلیڈ، اب تو پنڈورا لیکس میں ریٹائر جرنیلوں کے نام بھی آگئے، رہی سہی کسر پوری ہوئی، ایک طرف مگرمچھ اشرافیہ۔ دوسری طرف عوام، چشم بد دور، یہ عوام بھی کسی سے کم نہیں،’’ کھاتا ہے تو لگاتا بھی تو ہے‘‘ پر سر دھننے والے، ’’میرے اثاثے ذرائع آمدن سے زیادہ تو تمہیں کیا‘‘ پر تالیاں بجانے والے نااہلوں، مجرموں، اشتہاریوں کے ووٹر، سپورٹر، چشم بددور، عوام کے بھی کیا کہنے، بریانی کی ایک پلیٹ کے گرد بھنگڑے ڈالنے والے، چشم بددور، 50 سال پہلے روٹی، کپڑے اور مکان کیلئے ذوالفقار بھٹو کے سامنے ناچ رہے تھے۔
پچاس سال بعد روٹی، کپڑے اور مکان کی امید پر بلاول بھٹو کے سامنے ناچ رہے ہیں، چشم بد دور، عوام کے بھی کیا کہنے، جھوٹ، منافقت، خوشامد، جی حضوری، جگاڑ کے بادشاہ، اوپر مگرمچھوں کو دیکھیں، نیچے مگرمچھوں کے منہ میں میٹھی نیند سوئے عوام پر نظر ماریں، پیارے اور بے چارے پاکستان پر ترس آئے، چشم بد دور، آج بھی کئی پڑھے لکھے حریت پسند کہیں نواز شریف کو پھنسایا گیا، وہ آج بھی رہبر، قائد، امام خمینی، پاکستان پر رحم کھاؤ، باز آجاؤ۔ چشم بددور، آج اسلامی جمہوریہ پاکستان کا یہ حال، 5 سالہ زینب بھی غیر محفوظ، قبر میں کفن پہنے لیٹی 14 سالہ لڑکی بھی غیر محفوظ، چشم بددور، جعلسازی ایسی لندن میں بیٹھے نواز شریف کو پاکستان سے کورونا کی 3 ڈوزیں لگ چکیں، چشم بد دور ہماری اوقات یہ، بائیڈن فون کرتا نہیں، مودی فون سنتا نہیں، نیوزی لینڈ کی وزیراعظم بات مانتی نہیں، ہماری حیثیت یہ کہ پاکستانی پاسپورٹ 113ویں نمبر پر پہنچ گیا۔
بات پنڈورا لیکس کی، شوربرپا، لیکن یہ چند دن کا شور، جہاں زکوٰۃ اور صدقات کھا لئے جائیں، جہاں یتیموں، مسکینوں کا مال ہڑپ کر لیا جائے، جہاں بہنوں کا حق مار لیا جائے، جہاں چند مرلے زمین، چند لاکھ روپوں کی خاطر بیٹے ماؤں کو پیٹ رہے ہیں، وہاں پنڈورا لیکس سے کیا نکلنا، یہاں حمود الرحمٰن کمیشن سے ایبٹ آباد کمیشن تک، ریکوڈک سے براڈ شیٹ تک کچھ ہوا، ڈاکٹر عاصم کی وڈیو آئی تھی، پھانسی چڑھنے سے پہلے صولت مرزا کی وڈیو آئی تھی۔ ذوالفقار مرزا نے قرآن اٹھا اٹھا کر کچھ کہا تھا، مشتاق رئیسانی کی وڈیو، عبدالمجید اچکزئی کی وڈیو،عزیر بلوچ کی وڈیو، یوسف رضا گیلانی کے لخت جگر کی وڈیو، جج ارشد ملک کی وڈیو، جسٹس (ر) جاوید اقبال کی وڈیو، کچھ ہوا، لہٰذا شانتی، پنڈورا لیکس پر بھی کچھ نہیں ہو گا۔ اخلاقیات کا قحط ایسا، دونمبری ایسی کہ مریم نواز اپنے بندے کی وڈیو پر کہیں یہ اللّٰہ اور بندے کا معاملہ، مخالفین کی وڈیو پر پریس کانفرنسیں کریں، کہیں سب کو مثالِ عبرت بنا دو، کیپٹن صفدر تو پہنچے ہوئے بزرگ نکلے، بولے’’غیر اخلاقی وڈیوز سے مت ڈرو، جرأت سے کام لو، ہر ایک کی غیر اخلاقی وڈیو ہوتی ہے ‘‘، واہ میرے جرأت مند۔
پھر سن لیں، پنڈورا لیکس چند دنوں کی مہمان، کچھ نہیں ہونا، کچھ نہیں نکلنا، ویسے بھی پنڈورا لیکس کے تابوت میں میرے کپتان آخری کیل ٹھونک چکے، پنڈورا لیکس پر وزیراعظم انسپکشن کمیشن کے جھنڈے تلے کمیشن بنا دیا، نیب، ایف آئی اے، ایف بی آر کے نمائندے تحقیقات کریں گے۔ پنڈورا لیکس میں آئے 7 سو اقبال کے شاہینوں کو چھوڑیں، صرف وفاقی وزراء کو لے لیں جن کی آف شور کمپنیاں نکلیں، ذرا منظر ملاحظہ ہو، الزام وفاقی وزراء پر، کمیشن کے سربراہ وزیراعظم، تحقیقات کریں گے سرکاری ادارے، مطلب چور خود، تفتیش خود، جج خود، چشم بددور، یہی عمران خان تھے جو پانامہ لیکس پر کسی تحقیق، تفتیش سے پہلے بولے’’ نواز شریف استعفیٰ دو، نواز شریف ہم تمہارے حکومتی کمیشن کو نہیں مانیں گے، نوا زشریف جب اوپر تم وزیراعظم بن کر بیٹھے ہو گے تو نیچے سرکاری ادارے کیا خاک آزاد انہ تفتیش کر سکیں گے، نواز شریف سب سرکاری ادارے تمہارے قبضے میں، ان اداروں کی تفتیش کو ہم نہیں مانتے‘‘۔
اب جب پنڈورا لیکس میں اپنی کابینہ، وزراء کے نام آئے تو امید تھی کہ عمران خان پہلے ٹوئٹ، پہلے بیان میں اپنے وزراء کو تب تک مستعفی ہونے کا کہیں گے جب تک وہ کلیئر نہیں ہو جاتے اور عمران خان چیف جسٹس سے درخواست کریں گے کہ پنڈورا لیکس پر ایک آزادانہ کمیشن بنائیں، جے آئی ٹی تشکیل دیں اور اپنی نگرانی میں الف سے ے تک تفتیش کرائیں مگر ایسا ہوا، نہ ہونا تھا۔ اب ایک طرف جب بات اپنوں کی ہو تو عمران خان کی اخلاقیات، اصول منطق غائب، بات مخالفین کی ہو تو عمران خان اخلاقی بلندیوں پر، شہباز شریف سے نیب کے چیئرمین کی مشاورت نہیں کرنی، منطق یہ کہ وہ نیب کے ملزم، نیب کے ملزم سے نیب چیئرمین تقرری کی مشاورت کیوں کروں۔ یہ علیحدہ بات عمران خان خود بھی نیب کے ملزم، لیکن بلاشبہ شہباز شریف سے مشاورت نہیں کرنی چاہئے کیونکہ وہ نہ صرف خود نیب کے ملزم، ان کے دونوں بیٹے، اہل خانہ نیب کے ملزم، ان کے بھائی نیب کے مجرم ہو کر اشتہاری، ان کے بھتیجے نیب کے مجرم، دونوں بھائیوں کے دونوں داماد نیب کے ملزم، اب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ علاقے کے مجرموں، ملزموں سے پوچھا جائے تمہارے علاقے کا ایس ایچ او کسے لگایا جائے۔
اب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ مجرموں، ملزموں سے پوچھا جائے تمہارے کیسوں کیلئے جج کسے لگائیں، شہباز شریف سے مشاورت نہیں ہونی چاہئے بلکہ میرا ماننا اب وقت آگیا ایسی قانون سازی کی جائے کہ نیب چیئرمین، چیف الیکشن کمشنر، ڈی جی ایف آئی اے حکومت، اپوزیشن نہ لگائے بلکہ سپریم کورٹ لگائے یا ایسا کمیشن، کمیٹی یہ تقرریاں کرے جس کا سیاست سے کوئی تعلق نہ ہو اور جو ڈائریکٹ یا ان ڈائریکٹ ان عہدوں کے بینیفشری نہ ہوں یا یہ محکمے انہیں کوئی فائدہ یا نقصان نہ پہنچا سکیں، خود ملاحظہ کریں کہ پی پی اور مسلم لیگ نے ملکر چیئرمین نیب لگایا۔ اب دونوں دھڑے ہاتھ دھو کر چیئرمین نیب کے پیچھے پڑے ہوئے، تحریک انصاف نے اپوزیشن کے ساتھ ملکر چیف الیکشن کمشنر لگایا، اب تحریک انصاف چیف الیکشن کمشنر کے خلاف، وجہ کیا، وجہ یہ، سب چاہیں جسے ہم لگائیں، وہ ہماری مانے، وہ ہمارا بن کر رہے، یہی وجہ آج ہر ادارہ تباہ و برباد، یہ لمبی کہانی، پھر سہی، جاتے جاتے پھر سے سن لیں، پنڈورا لیکس کی پیدا ہوتے ہی موت ہوچکی، بس دفنانا باقی۔
0 Comments