World

6/recent/ticker-posts

طالبان کی کامیابی پر امریکی عہدیدار حیرت زدہ

افغانستان میں حکومتی فورسزکی تربیت اور انہیں جدید ترین ہتھیاروں سے لیس کرنے پر اربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود طالبان کی پیش قدمی روکنے میں افغان فورسز کی ناکامی نے امریکی عہدیداروں کو سخت مایوسی میں مبتلا کر دیا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن اور دیگر اعلی عہدیدار افغان رہنماوں سے متحد ہونے اور ایک واضح لائحہ عمل طے کرنے کے لیے مسلسل اپیل کر رہے ہیں بصورت دیگر جنگجو چند ماہ کے اندر کابل پر قبضہ کر سکتے ہیں۔ کسی قابل ذکر مزاحمت کے بغیر مزید کئی صوبائی دارالحکومتوں پر طالبان کے قبضے کے مدنظر بائیڈن کا کہنا تھا،”ہم نے پچھلے بیس برس کے دوران ایک کھرب ڈالر سے زیادہ خرچ کیے، ہم نے تین لاکھ سے زیادہ افغان فورسز کو تربیت دی اور انہیں جدید آلات سے لیس کیا۔ افغان رہنماوں کو اب متحد ہوجانا چاہئے اور انہیں اپنے لیے اور اپنے ملک کے لیے خود ہی جنگ لڑنی چاہئے۔"

افغانستان سے 31 اگست تک امریکا کے مکمل انخلاء سے قبل پینٹاگون اور امریکی محکمہ خارجہ نے بھی بائیڈن کے بیانات کی تائید کرتے ہوئے، امریکا اور نیٹو افواج کی غیر موجودگی میں طالبان کی مسلسل کامیابیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان جان کربی نے کہا، ”افغان فورسز کے اندر صلاحیت ہے، ان کے اندر اہلیت ہے، عددی لحاظ سے انہیں برتری حاصل ہے، ان کے پاس ایئر فورس ہے۔ یہ فیصلہ افغان قیادت کو کرنا ہے کہ وہ ان صلاحیتوں کا استعمال کریں۔"

طالبان کی کامیابی پر امریکی عہدیدار حیرت زدہ
دوسری طرف طالبان جس تیز رفتاری سے پیش قدمی کر رہے ہیں اس پر امریکی عہدیدار نجی گفتگو میں انتہائی حیرت کا اظہار کر رہے ہیں۔ امریکا نے افغان فورسز کی مدد کے لیے گزشتہ دو ہفتوں کے دوران لشکر گاہ اور ہرات میں زبردست بمباری بھی کی تاکہ جنگجو آگے بڑھنے نہ پائیں لیکن اس کے باوجود طالبان نے کئی اہم شہروں کو بڑی آسانی سے اپنے قبضے میں کر لیا اور اب اسٹریٹیجک لحاظ سے اہم مزارشریف کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ امریکی عہدیداروں کا خیال ہے کہ اگر صدر اشرف غنی اپنی حکومت کو متحد کر پاتے اور فیصلہ کن انداز میں کارروائی کرتے ہیں تو نتائج مختلف ہو سکتے ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس کا کہنا تھا، ”افغان حکومت کو کئی طرح کی برتری حاصل ہے۔ اس کے پاس تین لاکھ فوج ہے، ایک ایئر فورس ہے، اسپیشل فورسز ہیں، بھاری جنگی سازوسامان ہیں، تربیت یافتہ فوجی ہیں اور امریکا کی طرف سے مسلسل تعاون ہے۔"

افغان قیادت میں عمل کا فقدان
امریکی تھنک ٹینک انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے اینڈریو واٹکنس کا خیال ہے،   ”بدقسمتی سے ایک طرح کا جمود طاری ہے، حکومت مفلوج ہے۔ صوبوں اور مقامی سکیورٹی فورسز تک پیسے اور رسد نہیں پہنچ پا رہی ہے، جس کی وجہ سے وہ طالبان کے نرغے میں آتے جا رہے ہیں۔" واٹکنس کا مزید کہنا تھا،”ایک چیز جو انہیں معلوم ہے وہ یہ کہ انہیں اپنی حکومت سے خاطر خواہ مدد نہیں مل پا رہی ہے۔" پینٹاگون کے ایک سابق عہدیدار اور 'دی امریکن وار ان افغانستان‘ کے مصنف کارٹر مالکاسیان کا کہنا ہے کہ بیشتر اہم فوجی کمانڈر اور متعدد قبائلی اور نسلی رہنما اس وقت سیاسی وجوہات کی بنا پر کابل میں آرام کر رہے ہیں حالانکہ اس وقت ان کا محاذ پر رہنا زیادہ ضروری تھا۔" مالکاسیان کہتے ہیں،”وہ چاہتے ہیں کہ حکومت کی طرف سے ان کی تھوڑی حوصلہ افزائی ہو اور بڑے رہنما مثلاً سابق صدر حامد کرزئی وہاں سے نکلیں اور اپنی برادری کے ساتھ مل کر جنگ کریں نہ کہ کابل میں آرام سے بیٹھے رہیں۔"

بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو


Post a Comment

0 Comments