World

6/recent/ticker-posts

امریکہ کی واپسی

دنیا کی واحد سپر پاور کہلانے والا امریکہ افغانستان میں دو عشروں سے جاری اپنی تاریخ کی طویل ترین جنگ جیتنے میں ناکام ہو کر مَدِمقابل مزاحمتی قوت تحریک طالبان سے اپنی افواج کے بحفاظت انخلا کے معاہدے کے آخری مراحل میں گزشتہ روز مزاحمت کاروں کے خلاف علامتی اہمیت کے حامل سب سے بڑے مرکز بگرام ایئربیس سے بھی رخصت ہو گیا۔ امریکی افواج کی جانب سے بگرام اڈا خالی کیے جانے کا طالبان نے خیر مقدم کیا ہے جبکہ یہ صورت حال بگرام ایئربیس کا کنٹرول سنبھالنے والی اشرف غنی حکومت کے لئے ایک کڑے امتحان سے کم نہیں جو ملک بھر میں مسلسل پیش قدمی کرتے طالبان کے مقابلے میں لڑکھڑاتی نظر آرہی ہے۔ روس کے مطابق افغانستان میں بدنام زمانہ دہشت گرد تنظیم داعش بھی تیزی سے منظم ہو رہی ہے جو یقینا ایک لائق تشویش بات ہے کیونکہ عرب دنیا میں داعش کا کردار انتہائی مشتبہ رہا ہے اور خود مغربی ذرائع سے یہ اطلاعات سامنے آتی رہی ہیں کہ یہ تنظیم امریکی مفادات کی تکمیل کے لئے کام کرتی رہی ہے۔ 

روس نے وسط ایشیا میں نیٹو کی موجودگی کو بھی ناقابل قبول قرار دیا ہے جس کا سبب بظاہر یہی ہے کہ اس صورت میں یہ خطہ کسی نہ کسی طور عالمی طاقتوں کے مفادات کا اکھاڑہ بنا رہے گا اور اس کے امن و استحکام کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو پائے گا۔ وائٹ ہائوس کے مطابق افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا اگست میں مکمل ہو گا۔ غیر ملکی ابلاغی اداروں کے مطابق امریکہ کے اعلیٰ حکام نے  بگرام فضائی اڈا مکمل طور پر افغان نیشنل سکیورٹی ڈیفنس فورس کے حوالے کر دیا ہے۔برطانوی نشریاتی ادارے کا یہ تبصرہ نہایت معنی خیز ہے کہ بگرام کا خالی کیا جانا اس امر کا مظہر ہے کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے، امریکی فوجی قوت کی علامت یہ اڈہ کبھی سوویت افواج کے زیر اثر تھا اور اب افغان سکیورٹی فورسز کے لئے یہ ایک بڑا چیلنج ہو گا کہ وہ شہر کے اندر اس شہر کو کیسے قابو میں رکھ سکتی ہیں‘ بگرام علامتی طور پر بھی اور اسٹرٹیجک اعتبار سے بھی اہم ہے۔ 

بتایا گیا ہے کہ کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے اور سفارت کاروں کی حفاظت میں معاونت کی خاطر تقریباً 650 امریکی فوجی متوقع طور پر افغانستان ہی میں رہیں گے۔ فوجی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغان حکومت کی بگرام پر کنٹرول برقرار رکھنے کی صلاحیت کابل کا دفاع کرنے اور طالبان کے خلاف مزاحمت کرنے میں اہم کردار کی حامل ثابت ہو گی۔ طالبان ترجمان ذبیح ﷲ مجاہد نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے بگرام سے امریکی افواج کے انخلا کا خیر مقدم کیا اور کہا ہے کہ اب افغان اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کر سکیں گے۔ تاہم روسی وزیر خارجہ کا یہ موقف ماضی کے تجربے کی روشنی میں بالکل درست نظر آتا ہے کہ مستقبل کے سیاسی بندوبست کے بغیر امریکہ کی واپسی کا مطلب خطے میں خانہ جنگی کی صورت میں خوں ریزی کے ایک نئے دور کا خطرہ مول لینے کے مترادف ہے۔

لہٰذا تمام افغان فریقوں اور امن عمل میں شریک تمام ممالک کو اس خدشے کو بہرکیف حقیقت بننے سے روکنا ہو گا۔ اس کا واحد طریقہ یہ ہے کہ معاملات جنگ کے میدان میں نہیں مذاکرات کی میز پر طے کیے جائیں‘ اور بیرونی افواج کی واپسی کے بعد عشروں سے جنگ کے شعلوں میں جھلستے افغانستان کے عوام کو حکومت سازی کے لئے اپنی آزاد مرضی سے اپنے نمائندوں کے انتخاب کا موقع فراہم کیا جائے۔ افغانستان میں پائیدار امن اور استحکام واضح حقائق کی بنا پر پاکستان کے مفاد کا ناگزیر تقاضا ہے لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ امن عمل میں پاکستان کے کردار پر شبہات کا اظہار کرنے والے دراصل اپنی بدنیتی کا مظاہرہ کرتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ امن عمل کی کامیابی تمام فریقوں کے مکمل تعاون ہی سے ممکن ہے لہٰذا سب کو اپنا کردار پورے اخلاص اور نیک نیتی سے ادا کرنا ہو گا۔

بشکریہ روزنامہ جنگ
 

Post a Comment

0 Comments