پاکستان اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے! پاکستان نازک دور سے گزر رہا ہے! پاکستان اکیلا رہ گیا ہے! پاکستان کی سلامتی خطرے میں ہے! پاکستان دشمنوں میں گھرا ہوا ہے! پاکستان کا وجود خطرے میں ہے! پاکستان چاروں طرف سے خطروں میں گرا ہوا ہے! پاکستان کو بچانا ہو گا! ففتھ جنریشن وار ہم پہ مسلط کی گئی ہے! پاکستان دشمنوں کی نظروں میں کھٹک رہا ہے! دشمن تاک میں ہے! پاکستان کو تر نوالہ سمجھا جارہا ہے! یہ سارے وہ جملے ہیں جو ہم وقتاً فوقتآ سنتے رہتے ہیں۔ کبھی حکمرانوں کے منہ سے تو کبھی حزب مخالف سے، کبھی اعلیٰ عہدے داران کے منہ سے۔ لیکن سب سے لطف کی بات یہ ہے کہ جب یہ جملے کہے جاتے تو سیاق و سباق کا کوئی ذکر نہیں ہوتا۔ کیوں ایسا ہو رہا یہ اچانک کیا ہو گیا ہے۔ یہ عموماً اس وقت کہا جاتا ہے جس وقت سیاستدانوں پر برا وقت ( یعنی انہیں اپنی خواہشات پوری کرنے کا موقع نہ مل رہا ہو) آتا ہے۔ تو سب سیاست دان اس قسم کی گفتگو کرتے ہیں چاہے اقتدار میں ہوں یا اپوزیشن میں۔ کبھی پاکستان کھپے اور کبھی نہ کھپے کے نعرے لگوائے جاتے ہیں۔
کسی ادارے کی کارکردگی پر سوالیہ نشان آجائے تو بجائے درستگی کرنے کے وہاں سے بھی انہی جملوں کی گونج سنائی دیتی ہے۔ آخر یہ سب ہے کیا؟ اور کس کو بیوقوف بنایا جاتا ہے؟ کب تک ہم اسی قسم کے جملوں کی تکرار سنتے رہیں گے؟ جب جس کا دل چاہے ملک کو مشکل وقت میں ڈال دے! کیونکہ اس وقت اقتدار اس کے پاس نہیں ہوتا اور جب دل چاہے ملک کو مشکل وقت سے باہر نکال لیں۔ ہم سب کو یہ بات اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ’’ہم پاکستان سے ہیں، پاکستان ہم سے نہیں ہے‘‘۔ یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ ’’اہم شخصیات نہیں وطن ہے‘‘۔ پتہ نہیں کیوں ہم لوگوں کے دماغ میں میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ شخصیات اہم ہیں ہمارا ملک نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ ہم لوگ ابھی تک ایک گروہ اور بھیڑ کی شکل میں نظر آتے ہیں قوم کی شکل میں نہیں ہیں۔ شخصیت کی اہمیت سے ہرگز انکار نہیں۔ شخصیت پرستی میں اتنا آگے نکل جانا کہ وطن پیچھے رہ جائے، اس کا کوئی فائدہ نہیں۔
کیوں کہ ان شخصیات نے مختلف نعرے لگا کر صرف اور صرف عوام کے جذبات سے کھلواڑ کیا ہے۔ ان سارے حکمرانوں میں ایک بات مشترک تھی کہ انہوں نے اپنے مخالفین اور سابق حکمرانوں کے خلاف بہت عدالتی کیس کئے۔ خوب پانی کی طرح عوام کا پیسہ بہایا گیا لیکن افسوس کوئی بھی عدالت میں دوسرے کو مجرم ثابت نہ کر سکا۔ نہ ہی ملزم سے کوئی پیسہ نکلوا سکا۔ دعویٰ سب نے بہت کئے لیکن نتائج سب کے صفر رہے۔ لیکن عوامی خزانہ خالی کر دیا گیا۔ یہ سارے " محب وطن" لوگ ملک میں صرف اقتدار کے وقت رہنا چاہتے ہیں اس میں بھی زیادہ تر وقت بیرون ملک دوروں پر روانہ رہتے ہیں۔ عمرے پہ تو اس طرح جاتے ہیں کہ جیسے عام زندگی میں بھی یہی کام ضرور کرتے ہوں لیکن اقتدار سے نکل کر ان کا عمرے کا شوق ختم ہو جاتا ہے کیونکہ سرکاری خرچ پہ جانا نہیں ہو پاتا۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ لوگوں کی یادداشت بڑی کمزور ہوتی ہے۔ وہ پچھلی باتوں کو یاد ہی نہیں رکھتے بلکہ یاد رکھنا ہی نہیں چاہتے کیوں کہ انہیں بھی چٹخارے کے لئے نئی بات یا نعرہ چاہیے ہوتا ہے۔ حالات بدلنے کی فکر کس کو ہے۔ نا عوام نا حکمران۔
0 Comments