پاکستان کی سیاسی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں سیاست دان، سیاسی جماعتوں سمیت دیگر سیاسی فریقین معاشرے میں ایک ایسا جمہوری و مہذہب سیاسی کلچر جہاں ایک دوسرے کی قبولیت اور احترام کا پہلو نمایاں ہو قائم نہیں کرسکیں۔ قومی سیاست کا منظر نامہ ایک بڑی سیاسی تقسیم کا سبب بن گیا ہے۔ سیاست سمیت ہر شعبہ میں لوگوں نے اپنی اپنی سیاسی پوزیشن لے کر خود کو ایک فریق کے طور پر کھڑا کر دیا ہے۔ سیاست میں عملا سیاسی پوزیشن لینا یا کسی کی حمایت یا مخالفت کرنا کوئی انہونی عمل نہیں بلکہ ایک فطری تقاضہ کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ لیکن سیاسی تقسیم کو بنیاد بنا کر سیاسی مسائل یا اختلافات کو سیاسی دشمنی میں تبدیل کرنے کے عمل نے پورے سیاسی، جمہوری اور اخلاقی بالادستی کے کلچر پر کئی طرح کے سوالیہ نشان کھڑا کر دیے ہیں کیونکہ جو سیاسی کلچر یہاں پنپ رہا ہے اس نے مجموعی طور پر ہماری سیاست و جمہوری عمل کو نقصان پہنچا کر عملی طور پر سیاسی رواداری اور قبولیت کے کلچر کے دروازوں کو بند کر دیا ہے۔
یہ جو کچھ ہم سیاسی مجالس، بیٹھک، جلسوں، جلوس، ٹی وی ٹاک شوز میں سیاسی فریقین سمیت دیگر صحافتی فریقین میں مکالمہ کے نام پر دیکھ رہے ہیں اس نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ سیاست سے لے کر گھر تک یا گھر سے معاشرے کے تمام طبقات میں عملی طور پر مکالمہ کے کلچر کے مقابلے میں انتہا پسندی پر مبنی رجحانات طاقت پکڑ رہے ہیں۔ یہ سوچ اور فکر ہی غلط ہے کہ میرے مقابلے میں باقی سب فریقین کی سوچ اور فکر غلط ہے۔ خود کو دوسروں سے اعلیٰ سمجھنا یا عقل کل کے طور پر خود کو پیش کرنا خود ایک بڑے خطرناک رجحانات کی عملا نشاندہی کرتا ہے۔ ہم نئی نسل کو اس عدم رواداری پر مبنی کلچر کی مدد سے کیا پیغام دے رہے ہیں کہ ہمیں اپنی بات منوانے کے لیے اونچی آواز کی مدد سے بات کرنا، دوسروں کی تذلیل کرنا یا کسی مخالف کی کردار کشی کرنا ہی مثبت ہتھیار ہے۔
سیاسی اختلافات، سیاسی سوچ اور فکر میں ایک دوسرے کے بارے میں متبادل خیال کا ہونا فطری امر ہے۔ اس لیے ان امور پر ہمیں گھبرانے کے بجائے اس بنیادی فریم ورک کو سمجھنا ہو گا کہ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ اختلافات کے باوجود باہمی تعاون کے ساتھ مل کر چلنا ہو گا اور یہ ہی عمل سیاسی رواداری کے عمل کو تقویت دینے کا سبب بنتا ہے۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ جب تک سیاسی جماعتیں، سیاسی قیادت، میڈیا اور سول سوسائٹی سمیت دیگر فریقین ایک بنیادی سیاسی فریم ورک یا کوڈ آف کنڈکٹ کی تشکیل نہیں کریں گی جو متفقہ بھی ہو سیاسی جماعتوں اور معاشرے کی سطح پر سیاسی ماحول میں ایک دوسرے کا سیاسی احترام قائم نہیں ہو سکے گا کیونکہ جو خرابی اوپر کی سطح سے نیچے کی سطح تک مجموعی طور پر سیاسی عدم برداشت کے کلچر کو فروغ دے رہی ہے اس کے ذمے دار ہم سب فریق ہیں۔
کیونکہ ہم نے یہ سوچ اختیار کر لی ہے کہ سیاست میں محازآرائی اور سیاسی کشیدگی کو بنیاد بنا کر عام لوگوں کو اپنے مخالفین کے خلاف ایک مضبوط سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اسی بنیاد پر سیاسی جماعتوں کی ترجیحات میں سیاسی و اخلاقی برتری کی جنگ کی حیثیت کمزور ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ سیاسی رواداری اور سیاسی اہم اہنگی یا سیاسی اختلاف کو بنیاد بنا کر سیاسی کارکنوں کی تربیت کا نظام عملی طور پر ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت کی ترجیحات میں اپنی جماعتوں کے داخلی نظام کو مضبوط کرنا اور سیاسی کارکنوں کو تیار نہ کرنے کے عمل نے پورے سیاسی نظام کو مفلوج کر دیا ہے کیونکہ اس وقت سیاسی محاذ پر جو سیاسی لعن طعن، گالم گلوچ، کردار کشی ، ننگی گالیاں ، عدم برداشت یا ذاتیات یا خاندان کی تضحیک، جھوٹ پر مبنی الزامات اور بالخصوص عورتوں، گھر کے افراد کی تضحیک جیسے پہلووں سمیت قومی و ریاستی اداروں پر جو کچھ بولا جارہا ہے وہ اخلاقی و سیاسی اصولوں کے برعکس ہے۔
سوشل میڈیا پر تو بے لگامی پہلے سے ہی موجود تھی مگر اب ہم رسمی میڈیا میں بھی ایسے پہلو دیکھ رہے ہیں جہاں خیالات، معلومات اور تجزیہ و تبصرہ میں حقایق کے مقابلے میں جھوٹ پر مبنی مہم نے بالادستی حاصل کر لی ہے جو سیاسی حالات کی سنگینی کو نمایاں کرتا ہے۔ سیاست اور جمہوریت کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ سیاسی دروازے بند کرنے کے بجائے آگے بڑھنے کے لیے نئے سیاسی امکانات کو پیدا کرتی ہے۔ لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہوتا ہے جب ہم طے کر لیں کہ ہمیں سیاست میں موجود اخلاقی و سیاسی مسائل کا ادراک کر کے ایک ایسا متبادل سیاسی نظام درکار ہے کیونکہ جب آپ کو سیاست سے جڑے داخلی سیاسی حقایق کا ادراک ہو جائے تو مرض کی سیاسی تشخیص کا علاج بھی تلاش کیا جاسکتا ہے۔ جب یہ دلیل دی جاتی ہے کہ پاکستان میں سیاست اور جمہوریت کا مقدمہ مضبوط ہونا چاہیے تو یہ عمل اسی صورت میں ممکن ہو سکتا ہے جب سیاست کو کسی اچھے اصول ، فکر، سوچ اور خیال کی بنیاد پر چلایا جائے ۔
اگرچہ یہ دور نظریاتی سیاست کا نہیں اور نہ ہی یہاں کسی فکری بنیاد پر سیاسی جنگ جاری ہے لیکن کچھ تو بنیادی اصول ہمیں سیاسی محاذ پر طے کرنے ہونگے جو آگے بڑھنے میں اور ایک قابل قبول سیاسی کلچر کو نئی سیاسی طاقت فراہم کر سکے۔ لیکن یہ عمل چھ صورتوں میں ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ اول سیاسی جماعتوں میں موجود سنجیدہ سیاسی قیادت یا افراد سمیت سیاسی کارکن اپنی جماعتوں کی سطح پر سیاسی رواداری کے کلچر کو فروغ دینے کے لیے سیاسی و قانونی دائرہ کار میں رہتے ہوئے دباو ڈالنے، آواز اٹھانے اور جو لوگ اس کلچر کو خراب کر رہے ہیں ان کے خلاف آواز اٹھانی ہو گی۔ دوئم میڈیا سمیت سوشل میڈیا پر اس منفی عمل کو فروغ دینے والے افراد یا اداروں کو رائے عامہ کی مثبت تشکیل میں اپنا ذمے دارانہ کردار ادا کرنا ہو گا۔ ریٹنگ کی بنیاد پر میڈیا یا سوشل میڈیا پر وڈیو وائرل کے کلچر کی نفی کر کے ایسے کلچر کو فوغ دینا ہو گا جو سیاسی اختلافات میں سیاسی دشمنی کے کلچر کو کمزور یا ختم کر سکے ۔
سوئم سیاسی جماعتوں کو اپنی اپنی جماعتوں کی سطح پر سیاسی کارکنوں کی تربیت کے نظام کو ترجیحی بنیادوں پر قائم کرنا ہو گا اور سیاسی کارکنوں میں یہ سوچ اور فکر بڑھانی ہو گی کہ ہم غیر ضروری مباحث اور الزام تراشیوں کی سیاست سے باہر نکل کر سیاسی مخالفین کے لیے احترام کا رویہ پیدا کریں۔ خود ہمارے ٹاک شوز کے کلچر کو تبدیل کرنا ہو گا جو ریٹنگ کی بنیاد پر محاز آرائی کو پیدا کرنے کو اپنی طاقت سمجھتے ہیں۔ چہارم علمائے کرام ، دانش ور ، اہل قلم ، شاعر ، ادیب ، لکھاری بھی اس مہم کو اپنی ترجیح کا حصہ بنائیں اور ایک ایسا سیاسی بیانیہ کی تشکیل میں اپنا حصہ ڈالیں جو لوگوں کو تقسیم کرنے کے بجائے ان کو جوڑ سکے ۔ پنجم سیاسی طور پر رواداری کے کلچر کو فروغ دینے کے لیے ہمیں اپنے تعلیمی نظام میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں کرنا ہونگی اور نصابی کتابوں میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے جو نئی نسل میں عدم برداشت کے کلچر کو ختم کر سکے۔
نئی نسل کو یہ پیغام دینا ہو گا کہ وہ اس عمل میں خود کو ایک بڑے سفیر کے طور پر پیش کریں کہ ہمیں امن اور رواداری پر مبنی سیاست درکار ہے۔ یہ کام سوشل میڈیا میں ایک بہتر حکمت عملی کے ساتھ ہو سکتا ہے کہ ہم نفرت، تعصب اور دشمنی کی سیاست کو ختم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرسکیں ۔ ششم سول سوسائٹی اور معاشرے میں موجود تھنک ٹینک کو بھی سیاسی جماعتوں اور ان کے افراد یا شخصیات کے ساتھ ان کے ایجنڈے پر اپنی سیاسی طاقت یا خود کو بھی طاقت کی عملی سیاست سے جوڑنے کے بجائے سیاسی کلچر میں جمہوری اقدار کو مضبوط بنانے میں اپنا حصہ ڈالیں۔ اگر واقعی ہم چاہتے ہیں کہ ہمار ی سیاست اور جمہوریت کے عمل میں زیادہ سے زیادہ لوگ شریک ہوں اور وہ مجموعی طور پر سیاسی نظام کا حصہ بنیں تو ہمیں اپنے سیاسی کلچر کو سب فریقین کے لیے قابل قبول بنانا ہو گا۔ کیونکہ اس وقت لوگوں کی سیاسی نظام میں موثر شمولیت اسی صورت ممکن ہو گی جب ان کو رواداری پر مبنی کلچر ملے۔ لیکن ایک عمل سیاسی جماعتوں اور کارکنوں کی سطح پر جوابدہی کا نظام بھی قائم کرنا ہو گا تاکہ جو بھی فریق رواداری پر مبنی کلچر کو نقصان پہنچائے تو اس کو ہر فورم پر جوابدہ بنانا ہو گا۔ رواداری پر مبنی سیاسی کلچر کا عمل کبھی بھی سیاسی تنہائی میں نہیں ہو گا اور نہ ہی کوئی ایک فریق یہ کام کرسکتا ہے۔ اس کے لیے سب فریقین کو پہلے انفرادی سطح اور پھر اجتماعی طور پر اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہو گا اور اس سوچ اور فکر کو ایک بڑے بیانیہ کی صورت میں تبدیل کرنا ہو گا۔
0 Comments