World

6/recent/ticker-posts

سعودی عرب، ایران تعلقات کی بحالی

دورجدید کی خارجہ پالیسی کا اولین اصول ہے کہ کسی بھی ملک کا کوئی مستقل دوست یا دشمن نہیں ہوتا بلکہ اس کے مفادات مستقل ہوتے ہیں، اپنے ملکی مفادات کے حصول میں دوست اور مخالف بدلتے رہتے ہیں، اسی طرح عظیم قدیمی فلسفی کوٹلیا چانکیہ جی کا کہنا ہے کہ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے۔ میں نے اگست 2020ء میں متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے سفارتی تعلقات استوار ہونے کی خبریں منظرعام پر آنے کے بعد ان کا تذکرہ اپنے ہفتہ وار کالم میں کیا تھا، رواں سال کے آغاز پر مشرق وسطیٰ کے دو بڑے روایتی حریف سعودی عرب اور ایران نے دوطرفہ سفارتی تعلقات بحال کرنے کا فیصلہ کر کے علاقائی منظرنامے میں ایک نیا بھونچال برپا کر دیا ہے، ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ ان کا ملک سعودی عرب میں گزشتہ چھ سال سے بند اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھولنے کیلئے تیار ہے، تین ایرانی سفارتکاروں کو سعودی عرب نے ویزے جاری کئے تھے جو جدہ میں ایرانی دفتر کی بحالی میں مصروف ہیں۔ 

اس حوالے سے ایران کے وزیر خارجہ کا مزید کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے مابین مذاکرات کے چار دور عراق میں منعقد ہو چکے ہیں ، انہیں یقین ہے کہ سعودی عرب بھی ایران کے ساتھ کچھ علاقائی مسائل پر بات کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے، لیکن فی الحال توجہ دو طرفہ ایشوز پر مرکوز ہے۔ آج سے چھ سال قبل جنوری 2016ء میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات اس وقت منقطع ہو گئے تھے جب ایرانی دارالحکومت تہران میں سعودی سفارت خانے پر مشتعل افراد نے دھاوا بول دیا تھا۔ سعودی عرب اور ایران کے مابین تعلقات بحالی کی خبروں نے مجھے ایک مرتبہ پھر سرد جنگ کے زمانے میں پہنچا دیا جب دونوں ممالک کو امریکی صدر رچرڈ نکسن کی ڈاکٹرائن کے تحت ٹوئن پلرز (جڑواں ستون) کا درجہ حاصل تھا، سعودی عرب اپنے قیام کے روز سے امریکہ کا قریبی اتحادی گردانا جاتا ہے جبکہ کسی زمانے میں شاہِ ایران بھی خطے میں امریکی مفادات کا نگہبان تھا، تاہم ایران میں اسلامی انقلاب برپا ہونے کے بعد ایران امریکہ کا کٹر دشمن بن کر ابھرا جبکہ سعودی عرب سمیت دیگر علاقائی ممالک نظریاتی طور پر ایران کو اپنا حریف سمجھنے لگے۔ 

مشرق وسطیٰ میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کیلئے تیل کی دولت سے مالامال دونوں بڑے ملک میں عرصہ دراز سے ہر محاذ پر کشیدگی جاری ہے جس کی اہم مثال شام اور یمن کے حالات ہیں جہاں خانہ جنگی کے شکار دونوں ممالک کو کم و بیش ایک جیسی اندرونی صورتحال کا سامنا ہے۔ سعودی عرب کی سربراہی میں اتحادی ممالک کا عسکری اتحاد یمن حکومت کی حمایت میں حوثی باغیوں کے خلاف نبرد آزما ہے اور حوثی باغیوں کو اسلحے کی فراہمی میں ایران کو ملوث سمجھتا ہے، دوسری طرف سعودی عرب شام کے حکمران بشارالاسد کی مخالفت کرتا ہے تو ایران شام کی حکومت کے شانہ بشانہ باغیوں کی سرکوبی میں کوشاں ہے۔ دونوں ممالک کو قریب لانے کیلئے برف تب پگھلی جب گزشتہ برس عراق نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بحالی کے لئے ثالثی کا کردار نبھانا شروع کیا، میڈیا رپورٹس کے مطابق بغداد میں دو طرفہ مذاکرات کے چار بڑے اعلیٰ سطحی ادوار کے بعد دونوں ممالک نے تعلقات کی بحالی کا اصولی فیصلہ کر لیا جسے رواں برس کے آغاز پر سب سے اہم خبر قرار دیا جارہا ہے، 

عالمی مبصرین اس حیران کُن پیش رفت کے پس پردہ عوامل جاننے کیلئے مختلف قیاس آرائیاں کر رہے ہیں، تاہم میری نظر میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء سے واضح ہو گیا ہے کہ امریکہ کا اس خطے میں مزید کوئی عسکری مفاد نہیں، امریکی صدر جوبائیڈن کی جانب سے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے میں واپسی کا عندیہ امریکہ کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کا ایک واضح اشارہ ہے، میں سمجھتا ہوں کہ سعودی عرب اور ایران کی اعلیٰ قیادت کو بروقت ادراک ہو گیا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں برپا سرد جنگ کی بہت بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں، ایک امریکی تھنک ٹینک کے مطابق عالمی معاشی پابندیوں کا شکار ایران یمن، عراق اور لبنان سمیت اپنے علاقائی اتحادیوں پر سالانہ 15 ہزار ملین ڈالر سے 20 ہزار ملین ڈالر خرچ کرتا ہے، اسی طرح ایران کے ساتھ کشیدگی کے باعث سعودی عرب کا سالانہ عسکری بجٹ 57 ہزار ملین ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ایران اور سعودی عرب کا اپنی طویل رقابت کو خیرباد کہہ کر سفارتی تعلقات بحالی کا فیصلہ پاکستان پر بھی مثبت اور دوررس اثرات مرتب کرنے کا باعث بنے گا۔

مزید براں، سعودی عرب اور ایران کے مابین حالیہ پیش رفت نے میرے اس دیرینہ موقف کو بھی تقویت پہنچائی ہے کہ دشمنی لانگ ٹرم نہیں چل سکتی اور ہر مسئلے کا حل ڈائیلاگ ہے، ایک نہ ایک دن آپ کو مذاکرات کی میز پر آنا ہی پڑتا ہے۔ کوریائی ممالک ہوں یا جرمنی کے سابقہ حصے یا پھر یورپی ممالک، ان سب نے اپنے تنازعات گفت و شنید سے ہی حل کئے ہیں۔ میں کافی عرصے سے پاکستان اور بھارت کے عوام کو قریب لانے کیلئے مذہبی سیاحت کے فروغ کیلئے کوشاں ہوں، مجھے یقین ہے کہ میرا یہ مخلصانہ اقدام نہ صرف علاقائی امن و استحکام کا باعث بنے گا بلکہ بین المذاہب ہم آہنگی کو بھی فروغ دے گا کیونکہ دنیا کا ہر مذہب امن، سلامتی، بھائی چارے اور باہمی احترام کا درس دیتا ہے۔ ایران اور سعودی عرب کے مابین صلح کے بعد دنیا پاکستان اور بھارت کے حوالے سے بھی عنقریب خوش خبری سنے گی۔

ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی 

بشکریہ روزنامہ جنگ

Post a Comment

0 Comments