وہ نسل جو موجودہ صدی میں جوان ہوئی ، اسے تیس چالیس سال پہلے کی دنیا کے بارے میں بہت کم معلومات ہیں۔ اسے ان عظیم انسانوں کے بارے میں کوئی خبر نہیں جن کی بے مثال جدوجہد اور محنت کی وجہ سے آج ہم نسبتاً زیادہ مہذب معاشروں میں سانس لے رہے ہیں۔ ایسے زیادہ تر لوگ دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں، ان میں سے ایک ڈیسمنڈٹوٹو ہیں جو 26 دسمبر 2021 کو نوے برس کی عمر پاکر اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ بہت کم نوجوان اس عظیم شخصیت کے نام سے واقف ہیں، جسے جنوبی افریقا میں نسلی امتیاز کے خلاف دلیرانہ مزاحمت کے اعتراف میں 1984 میں امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ سب سے پہلے تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ نسلی امتیاز کیا ہے اور اسے جنوبی افریقا کی سفید فام حکومت نے کس طرح ایک قانونی شکل دی۔ جنوبی افریقا میں سفید فاموں کی تعداد 20 فیصد تھی جب کہ اس ملک کے اصل سیاہ فام باشندے آبادی کا 80 فیصد تھے۔
سفید فام نسل پرست حکومت رنگ اور نسل کی تفریق کو ختم کرنے کے بجائے اسے نہ صرف قائم رکھتی تھی بلکہ اسے فروغ دیتی تھی۔ جنوبی افریقا کی سفید فام نسل پرست حکومت نے ایسے قوانین بنائے جن کے ذریعے سیاہ فام لوگوں کو معاشرے میں بالکل الگ تھلگ کر دیا گیا۔ انھیں سفید فام لوگوں کے علاقوں میں آنے جانے کی سخت ممانعت تھی، اگر ان علاقوں میں کسی سیاہ فام نوکر یا ملازم کی ضرورت پڑتی تو اس کے لیے خصوصی اجازت نامہ جاری کیا جاتا تھا۔ سفید فام آبادیوں میں کام کرنے والے سیاہ فام مرد یا عورت کو یہ اجازت نہیں تھی کہ وہ گھر والوں کو اپنے ساتھ رکھ سکیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ سمجھ لیں کہ امتیازی قوانین اتنے سخت اور سفاک تھے کہ انھوں نے سیاہ فام گھرانوں تک کو تقسیم کر کے رکھ دیا۔ گوروں کے لیے ہوٹل، سڑکیں، فٹ پاتھ، اسکول، اسپتال، بس، سینما اور ٹرین غرض ہر جگہ الگ تھی۔ کوئی سیاہ فام اگر غلطی سے وہاں داخل ہو جاتا تو اس کو سخت سزا یا جرمانے کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
مہاتما گاندھی اگرچہ سیاہ فام نہیں رنگدار تھے لیکن وہ بھی سیاہ فام کی درجہ بندی میں آتے تھے، لہٰذا ان جیسے پڑھے لکھے اور معاشی طور پر نسبتاً خوشحال رنگ دار انسان کو بھی ایک نہیں بلکہ کم از کم چار بار امتیازی قوانین کی خلاف ورزی پر سخت ذلت اور توہین آمیز سلوک برداشت کرنا پڑا تھا۔ ایک دفعہ انھیں ٹرین کے ڈبے سے نکال کر باہر پھینک دیا گیا، ایک بار وہ اس راستے سے بس میں سوار ہونے لگے جو صرف سفید فاموں کے لیے مخصوص تھا تو کنڈیکٹرنے ان کی سخت پٹائی کر دی تھی۔ یہ کوئی سو سال پرانی بات نہیں یہ 20 ویں صدی کے جنوبی افریقا کی بات ہو رہی ہے۔ جہاں نسلی امتیاز (Apartheid) کے قوانین کو 1940 کی دہائی میں عملاً نافذ کر دیا گیا تھا۔ اس نظام کے خلاف افریقین نیشنل کانگریس کی جانب سے جدوجہد کا آغاز کیا گیا۔ اس پارٹی میں وہ تمام عناصر متحد ہو گئے جو سفید فاموں کی بالادستی اور نسلی امتیاز کے خاتمے کے لیے سرگرم تھے، ان میں کمیونسٹ ، لبرل اور قوم پرست سب شامل تھے۔ اس تحریک کی قیادت نیلسن منڈیلا کر رہے تھے جنھیں 1964 میں گرفتار کر لیا گیا اور ایک بدنام زمانہ جیل میں 27 برس تک قید رکھا گیا۔
نیلسن منڈیلا نے جیل کے اندر سے نسل پرست حکومت اور نظام سے آزادی کے لیے چلنے والی تحریک کی قیادت کی۔ جنوبی افریقہ میں جلسے، جلوسوں اور ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ افریقن نیشنل کانگریس نے بدترین ریاستی تشدد سے بچنے کے لیے عدم تشدد کا راستہ اختیار کیا۔ عدم تشدد کے ذریعے ریاستی تشدد کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملی بے انتہا کامیاب ہوئی۔ تیسری دنیا کے عوام کی ہمدردیاں پہلے ہی ان کے ساتھ اس پالیسی کے باعث امریکا اور یورپ کے سفید فام لوگ بھی افریقین نیشنل کانگریس کے حامی ہو گئے، جس سے سفید فام نسل پرست حکومت پر کافی دبائو پڑا اوراس نے بتدریج پسپائی اختیارکرنی شروع کر دی۔ نیلسن منڈیلا کو جیل میں بند کر کے جنوبی افریقا کی نسل پرست حکومت نے یہ سمجھا کہ عملی میدان میں ان کی عدم موجودگی سے نسلی امتیاز کے خلاف جدوجہد کمزور پڑ جائے گی۔ انھیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ 7 اکتوبر 1931 میں جوہانسبرگ کے ایک گائوں میں پیدا ہونے والا اور مذہب سے گہرا لگائو رکھنے والا ایک رہنما آگے بڑھ کر تحریک کی قیادت سنبھال لے گا۔
وہ نسلی امتیاز کے خاتمے اور نسلی برابری و مساوات کے اصول پر جنوبی افریقا کو ایک جمہوری ملک بنانے کے لیے عدم تشدد کے فلسفے کے تحت ایسی شاندار جدوجہد کرے گا جو تاریخ میں ایک مثال بن جائے گی۔ ڈیسمنڈ ٹوٹو نے بھی معلمی کا پیشہ اختیار کیا لیکن سیاہ فام بچوں کے لیے کمتر اور سفید فام بچوں کے لیے اعلیٰ تعلیمی نظام سے وہ اس قدر مایوس ہوئے کہ انھوں نے پادری بن کر اس امتیاز کے خلاف شعور پھیلانے کا فیصلہ کیا ۔ وہ پادری بن گئے لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ نسل پرست حکومت، سیاہ فاموں کی تحریک کو بدترین تشدد کے ذریعے کچل رہی ہے تو وہ اپنے ضمیرکی آواز پر لبیک کہہ کر سیاہ فام مظلوموں کی آواز بن گئے۔ 1976 میں انھیں بشپ بنایا گیا۔ اس موقع پر انھوں نے جنوبی افریقا کے وزیر اعظم کو خط لکھ کر اس بے چینی کے بارے میں متنبہ کیا جو ملک کے طول و عرض میں پھیلتی جارہی تھی۔ یہ نسلی امتیاز کے خلاف ان کی عملی جدوجہد کا آغاز تھا۔ 1978 میں انھیں افریقن کونسل آف چرچز کا پہلا سیاہ فام سیکریٹری جنرل بنا دیا گیا جس کے بعد انھیں عالمی سطح پر پذیرائی ملنی شروع ہو گئی۔ مذہبی رہنمائوں کو عموماً شدید قدامت پرست تصور کیا جاتا ہے۔
ڈیسمنڈ ٹوٹو نے ایک آرک بشپ ہوتے ہوئے جو موقف اختیار کیا اس نے ان کے نظریاتی مخالفین کو بھی حیرت زدہ کر دیا۔ ڈیسمنڈ ٹوٹو کسی سے نفرت نہیں کرتے تھے۔ نیلسن منڈیلا اور ڈیسمنڈ ٹوٹو جیسے رہنمائوں، افریقن نیشنل کانگریس کے ہزاروں کارکنوں، سیاہ فام عوام کی بے مثال تحریک اور قربانیوں کے نتیجے میں جنوبی افریقا کی نسل پرست حکومت کو پسپا ہونا پڑا۔ ریاستی تشدد کی پالیسی پر عدم تشدد کے اصول پر مبنی سیاسی جدوجہد کو فتح حاصل ہوئی اور نیلسن منڈیلا 1994 میں جنوبی افریقا کے پہلے سیاہ فام صدر بن گئے۔ نیلسن منڈیلا اور ڈیسمنڈ ٹوٹو نے ہر محاذ پر سفید فام اقلیتی نسل پرست حکومت کو شکست دی۔ آزادی ملنے کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ سفید فاموں کے خلاف کسی بھی قسم کی انتقامی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ انھوں نے سفید فاموں کو حکومت میں شامل کیا، ان کے ساتھ مل کر جنوبی افریقا کا آئین بنایا جس کے لیے دو سال تک مشاورت اور صلاح و مشورے کا عمل جاری رہا۔ اگر آپ جنوبی افریقا کے آئین کا مطالعہ کریں تو یقیناً اسے دنیا کا ایک بہترین آئین قرار دیں گے۔
اقلیتی سفید فام نسل پرست حکومت نے غیر معمولی اکثریت رکھنے والے سیاہ فاموں پر جو مظالم ڈھائے تھے اسے پڑھ کر انسان لرز جاتا ہے۔ سیاہ فام رہنمائوں کی بصیرت دیکھیں کہ انھوں نے سچائی اور مصالحتی کمیشن تشکیل دیا جس کا مقصد یہ تھا کہ جس نے کسی کے بھی خلاف خواہ کتنا ہی گھنائونا جرم کیوں نہ کیا ہو وہ مفاہمت کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے اس کا برسر عام اعتراف کرے، اسے معاف کر دیا جائے گا۔ اس کمیشن کا سربراہ ڈیسمنڈٹوٹو کو بنایا گیا۔ جب کمیشن کا کام مکمل ہو گیا تو ڈیسمنڈ ٹوٹو بھی عملی سیاست سے کنارہ کش ہو گئے۔ ایک آزاد، نئے اور نسلی برابری کے اصول پر عمل پیرا ہو کر جنوبی افریقا کو انھوں نے ’’ قوسِ قزح ‘‘ کا نام دیا۔ جنوبی افریقا ان ملکوں کے لیے ایک مثال ہے جو بدترین سیاسی بحرانوں میں مبتلا ہیں، جہاں محاذ آرائیاں اس قدر شدت اختیار کر گئی ہیں کہ حریفوں اور متحارب گروپوں کا ایک ساتھ بیٹھنا اور بات کرنا ممکن نہیں رہا ہے۔ دل بڑا کیا جائے، ذاتی مفاد پر عوام کے مفاد کو ترجیح دی جائے تو پر امن تبدیلی ممکن ہے۔ کیا ہی خوب ہو کہ اس نکتے پر اگر ہم بھی غورکر لیں۔
0 Comments