پاکستان جون 2018 سے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ میں شامل ہے۔ اِس لسٹ سے نکلنے کے لئے پاکستان ٹاسک فورس کے ایک ایکشن پلان پر متفق ہوا تھا جس کا مقصد منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی فنانسنگ روکنے کے نظام میں موجود خامیوں کو ختم کرنا تھا۔ ٹاسک فورس کے اِس ایکشن پلان میں 27 نکات شامل تھے۔ پاکستان کیلئے، جو اُس وقت داخلی عدم استحکام کا شکار تھا، اِن نکات کو جلد از جلد پورا کرنا ممکن نہیں تھا لیکن حکومت کی مسلسل کوششوں کے بعد ٹاسک فورس کے 27 میں سے 26 نکات پورے کر دیے گئے جس کے بعد اُمید کی جا رہی تھی کہ فیٹف کے حالیہ اجلاس میں پاکستان کو گرے لسٹ سے نکال کر وائٹ لسٹ میں شامل کر لیا جائے گا لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہو سکا۔ ٹاسک فورس نے پاکستان کی طرف سے 26 نکات پورے کرنے کو سراہا ضرور ہے لیکن گرے لسٹ سے نکالا نہیں بلکہ اپنے نئے ایکشن پلان کے تحت پاکستان کو چار غیرنامزد مالیاتی کاروبار اور پیشوں کی جانچ پڑتال کا پابند بنا دیا ہے، جس میں رئیل اسٹیٹ ایجنٹ، جیولر، وکلا اور اکائونٹنٹ شامل ہیں جو متعلقہ صارفین سے متعلق مشتبہ ٹرانزیکشن رپورٹس بناتے ہیں۔
نئے ایکشن پلان کے مطابق جو شخص یا ادارہ ایف اے ٹی ایف کی شرائط پوری کرنے میں ناکام ہوا اُسے نوٹس جاری کرنے کے بعد اُس کا کاروبار بند کر دیا جائیگا۔ پاکستان شاید واحد ملک ہے جہاں فیٹف اور اُس کی علاقائی باڈی ایشیا پیسفک گروپ دو مختلف طریقہ کار ایک ساتھ چلا رہے ہیں لیکن اِس کے باوجود حکومت نے ٹاسک فورس کے ایکشن پلان اور اے پی جی کی سفارشات پر عملدرآمد کروانے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی اور نہ آئندہ رکھی جائے گی۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ حکومت بین الاقوامی تعاون بڑھائے تاکہ منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے والوں کا عالمی برادری کی مدد سے قلع قمع کیا جا سکے۔ اسی طرح پاکستان فیٹف کی گرے لسٹ سے نکل سکتا ہے اور اپنی معیشت مضبوط بنا سکتا ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 Comments